وہاں اُس بزم میں
وہاں اُس بزم میں اِک شخص وہ بھی تھا
کہ جس کے ہاتھ کی جنبش کو
جس کے منہ سے نکلے لفظ کو
قانون کہتے ہیں
وہ اپنی ذات کا قیدی
انا، پندار، خودبینی کی زنجیروں میں جکڑا تھا
وہ اپنے نام کی خاطر
کسی کو بھی نہیں لاتا تھا خاطر میں
کہا: اے اہل ِ مجلس، غور سے سُن لو
سمجھ لو سب، یہاں اِک صرف میرا حکم چلتا ہے
مرے الفاظ حاوی ہیں
سبھی اقدار پر، ہر اِک روایت پر
جسے چاہوں
مقامِ عزت و توقیر سے محروم کر ڈالوں
جسے چاہوں
اُسے ناموس کی کرسی عنایت ہو
وہاں اُس بزم میں اک شخص وہ بھی تھا
جو دل میں درد رکھتا تھا
وہ جس نے ذات کی زنجیر توڑی تھی
گزاریں جاگ کر راتیں
وہ جس نے بے زبانوں کو زباں بخشی
وہ خود خاموش بیٹھا تھا
وہاں اُس بزم میں اِک شخص وہ بھی تھا
نگہ جس کی بصیرت کا خزینہ تھی
تحمل جس کا شیوہ تھا، تفکر جس کی عادت تھی
جو ہر اک بات کی تہہ تک اترتا تھا
اُسے محسوس کرتا تھا
بڑا بے چین تھا اور مضطرب لہجے میں
کچھ کہتا تھا لیکن
ربط سے محروم باتوں کاکوئی مفہوم کیا پاتا!۔
وہاں اُس بزم میں اک شخص وہ بھی تھا
کہ جس کا شوخ لہجہ بولتی آنکھیں
ہر اِک محفل کی رونق تھیں
وہ جو الفاظ سے انصاف کرتا تھا
وہ اپنے حرف ہونٹوں میں دبائے
خالی آنکھوں سے خلا میں گھُورتا تھا
سوچ میں گم تھا
وہاں اُس بزم میں اک شخص وہ بھی تھا
جسے ادراک کی دولت میسر تھی
جسے
الفاظ کو معنی عطا کرنے کا فن آتا تو تھا لیکن
بڑا چپ چاپ بیٹھا تھا
مگر بے چین لگتا تھا
سبھی آنکھوں نے دیکھا
اُس کی پلکوں پر رُکے آنسو
کبھی گرنے کبھی تحلیل ہو جانے پہ مائل تھے
بس اِک سسکی اٹھی، پھر تو
وہاں خاموش بیٹھے سارے ہونٹوں کی فغاں
ادراک سے، سوچوں سے، لفظوں سے کہیں آگے
جہانِ بے کراں کی وسعتوں پر چھا گئی
جیسے، وہاں کوئی نہ بیٹھا ہو!۔
۔ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۸۵ء
No comments:
Post a Comment