Friday, March 15, 2019

نظم: ادراک

ادراک



وہ آدمی عجیب تھا
ملا تو جیسے اجنبی
رہا تو جیسے اجنبی
گیا تو جیسے اجنبی
عجیب تھا وہ آدمی
وہ آدمی عجیب تھا
عجیب کم نصیب تھا
نہ وہ کسی کا ہو سکا
نہ کوئی اس کا ہو سکا
رہا وہ قید اپنی ذات کے حصار میں سدا
جو ایک بے صدا جہاں کا شخص تھا
کسی سے اس نے دل کی بات کب کہی
کسی کے دل کی بات اس نے کب سنی
نہ اس کی زندگی کسی کے کام کی
نہ اس کی موت سے جہاں میں کچھ خلل
وہ اپنی ذات کے لئے بِتا رہا تھا زندگی
جو مر گیا تو کیا ہوا
نہ مر سکا تو کیا ہوا
جہانِ بے کراں میں بے شمار لوگ اور ہیں
کہ جن کے سارے روز و شب میں
 ایک سا سکوت ہے
سکوت بھی عجیب سا
کہ جیسے موت کی صدا
کہ جس کے کان میں پڑی
جہاں سے وہ گزر گیا
وہ آدمی عجیب سا
وہ میرے جیسا آدمی


۔  مئی ۱۹۹۸ء

No comments:

Post a Comment