کبھی اے حقیقت ِ منتظَر
کبھی اے حقیقت ِ منتظَر
کبھی اے امید کی صبحِ نو
کبھی آ بھی جا
میں فریب خوردۂ نور ہوں
اسی وجہ سے
مجھے تیرگی سے ہے پیار سا
مرے آسمانِ خیال پر
ہے براجمان
شکستگی کی سیاہ شب
یہیں بس نہیں
مری آپ اپنے وجود سے
جو ہے کش مکش
ابھی ہے جواں، ہے عروج پر
کسے کیا خبر کہ جو دن چڑھے
تو وہ کیا لگے گا نگاہ کو
کہ حقیقتوں کا شعور مجھ کو نہ ہو سکا
کہ نگاہ میری رسا نہ تھی
کہ سبھی مناظرِ کوئے شب
جو دکھائے ہیں مجھے وقت نے
وہ سراب تھے
وہ دیارِ غیر سے روشنی
جو ادھار مانگ کے لائے ہیں
وہ فریب ہے
کبھی جھٹ پٹا ہو شعور کا
مری اپنی فکر کے غارِ تیرہ و تار میں
مری دونوں آنکھوں کی پُتلیاں
بڑی دیر سے
کسی خوابِ خوش کی ہیں منتظِر
مری انگلیوں کی
ہر ایک پور میں
گویا دیکھتی آنکھ ہے
کہیں بن گئی
مجھے اس سحر کی تلاش ہے
جو مرے شعور سے لے جنم
مجھے نور دے
مجھے پور پور سے مِہرِ نو َ ہے تراشنا!۔
جو سفید روشنی دے مجھے
میں رہینِ عینکِ غیر تو نہ رہوں گا پھر
کبھی اے حقیقت ِ منتظَر
۔ ۲۱؍ فروری ۱۹۹۰ء
No comments:
Post a Comment