Friday, March 15, 2019

نظم: میں کیا لکھوں

میں کیا لکھوں
۔ (مقبول کاوشؔ مرحوم کے لئے ایک نظم)   ۔


اگر مقبول کاوش ہو
تو حرفِ مدّعا لکھوں
اگر الفاظ میرا ساتھ دیں تو
جانے کیا لکھوں! دعا لکھوں
کوئی بتلاؤ 
کیسے دل سے
اُس کو مر گیا لکھوں
وہ جو اک بے ضرر سا شخص تھا، وہ مر گیا
یہ کیا ہوا، کیسے ہوا،  یارو!۔
اسے مارا گیا لکھوں؟ مَرا لکھوں؟
کہ پھر سے جی اٹھا لکھوں!۔
میں کیا لکھوں؟ دعا لکھوں!۔
اُسے تازہ ہوا لکھوں
دوا لکھوں، کہ دردِ لا دوا لکھوں؟ دعا لکھوں!۔
جہاں کے مرغزاروں میں
بہاروں کی ہواؤں سے
ہزاروں پھول کھلتے ہیں
بیابانوں میں ہوں جیسے
کہیں افلاک سے اتری
قطار اندر قطار آنکھیں
مگر اُس کے چمن میں
ایک بھی غنچہ نہ کھل پایا
اِسے میں امتحانِ زندگی لکھوں،۔
رضا لکھوں، کہ کیا لکھوں؟
وہ جس نے حرف کے تیشے سے
قلبِ سنگ و آہن میں
رکھی احساس کی کومل بنا
اس کو وفا لکھوں!۔
میں اس کی سوچ کے حق میں دعا لکھوں!۔
وہ جس نے گونگی دھرتی میں چھپی
اظہار کی دولت کو بخشی
 حرف کی زریں ضیا،
روشن ہوا شہرِ صدا
اس شہر کا کیا ماجرا لکھوں؟ دعا لکھوں!۔
کہو اے وارثانِ حرف و معنی
کون تھا، جس نے
پسینے میں رچی خوشبو کو پرکھا
جس نے دو روٹی کے پاٹوں میںگھرے
پستے وجودوں کو
بکھرتے، ریزہ ریزہ
ناامیدی کی سیہ بوری میں گرتے دیکھ کر،۔
ان کی فغاں کو
روح تک محسوس کرکے
لفظ میں ڈھالا،لکھا،۔
زخموں کی سرخی کو گلابوں کی عطا کر کے قبا،۔
خود چل دیا،۔
کیسے گیا لکھوں!۔
وہ جو اک بے ضرر سا شخص تھا
معصوم سا اک آدمی تھا، بے ریا،۔
شہرِ نگاراں کو چلا تو پھر گیا!۔
کیسے گیا لکھوں؟
میں حرفِ مدعا لکھوں،۔
دعا لکھوں، کہ دردِ لا دوا لکھوں،۔
میں کیا لکھوں؟
فقط، حرفِ دعا لکھوں!!۔


۔ ۱۹۹۰ء

No comments:

Post a Comment