Thursday, March 14, 2019

نظم: بے گانگی کا رقص



بے گانگی کا رقص
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کیسے لوگ ہیں جو
اس زمیں کو زہر دیتے ہیں
وہ قاتل زہر کا پانی لگاتے ہیں
کہ دھرتی بانجھ ہو جاتی ہے
پودوں کی جڑوں میں زہر بھرتا ہے
مگر ظالم
انہیں مرنے نہیں دیتے
یہ اُن کی ہر رگِ جاں میں
نئے زہروں کے
سَو ٹیکے لگاتے ہیں
تو برگ و بار ملتا ہے
مگر وہ برگ و بر ہوتا نہیں ہے
زہر ہوتا ہے

کہ وہ بچے جو اس دنیا میں 
پہلا سانس لیتے ہیں
تو اُن کے ریشمی گالوں
لبِ گلگوں پہ
مخمل سی ملائم انگلیوں کی
ساری پوروں پر
جمی ہوتی ہیں
مردہ پپڑیوں کی وہ تہیں
جو سانس کی آلائشوں کو
خون میں شامل تو کرتی ہیں
مگر اخراج کا رستہ نہیں دیتیں
رگِ مادر کا جو فوارۂ بیضاء
انہیں فطرت سجھاتی ہے
لبِ نازک انہیں رستہ بتاتے ہیں
مگر وہ چشمۂ حیواں
کہ اس کی تہہ میں
ایسی کارگہ تھی
جو لہو سے شیر کا چشمہ اٹھاتی تھی
زمیں کے زہر کے ہاتھوں
حیات افزائی کے جوہر سے
خود محروم ہوتی ہے

خدا وندا!۔
مرے حصے کی دو دھاریں!
خداوندا!۔
مرے حصے کے دو قطرے!
یہاں بھی گر نہیں ہیں
تو کہاں ہوں گے!!
اسی حیرت میں
نومولود بچے کی
نظر ویران ہو جاتی ہے
اس کے ہر رگ و پے میں
نیا اِک زہر
محوِ رقص ہو جاتا ہے
اہلِ دل اسے
بے گانگی کا رقص کہتے ہیں
وہ جس کی تھاپ پر
میرا قلم تھرانے لگتا ہے
تو میں 
اک اجنبی سی نظم کہہ کر
زہر کی چُسکی لگاتا، مسکراتا،
بھول جاتا ہوں

۔۳۔فروری  ۲۰۱۹ء

No comments:

Post a Comment