غزل
گھٹن بڑھ رہی ہے، ہوا چاہتا ہوں
میں کلبوت سے بھاگنا چاہتا ہوں
اسیرِ زمان و مکاں ہوں ازل سے
کشودِ درِ دو سرا چاہتا ہوں
کوئی ہے جو یہ آرسی توڑ ڈالے
میں اس کی نظر میں اٹھا چاہتا ہوں
مجھے کوئی اس مخمصے سے نکالو
مجھے چاہئے کیا، میں کیا چاہتا ہوں
حصارِ غرورِ انا توڑنا ہے
غرورِ شکستِ انا چاہتا ہوں
بہ فیضانِ غمزاتِ دُزدیدہ چشمی
اسیرِ محبت ہوا چاہتا ہوں
۔ ۲۲ فروری ۲۰۱۵ء
No comments:
Post a Comment