Friday, April 10, 2020

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

غزل

جو بجلی سی دل کے ہوئی پار کیا تھی
نظر تھی، انی تھی کہ تلوار، کیا تھی

وہ تارے تھے جگنو تھے یا تیری آنکھیں
تری زلف تھی یا شبِ تار کیا تھی

یہ کھینچی ہیں جس نے قیامت کی قوسیں
عنانِ زمانہ کی پرکار کیا تھی

ہزار آزروئیں لہو ہو رہی تھیں
جو تم نے کہا: سرخ سی دھار کیا تھی

وہ میں رقص میں محو تھا پا بجولاں
تجھے کیا بتاؤں وہ چھنکار کیا تھی

مرے قہقہے ڈھل رہے تھے فغاں میں
جنوں تھا کوئی میری گفتار کیا تھی

۔ ۲۳۔فروری ۲۰۱۵ء

No comments:

Post a Comment