غزل
جی میں آتی ہے کہ جوں مہر اجالوں خود کو
مطلعِ تیرہءِ مغرب سے اچھالوں خود کو
اس سے پہلے کہ ہوا گرد اڑائے میری
سوچتا ہوں کہ میں اک سنگ بنا لوں خود کو
شیشہء دل میں تری بات سے بال آیا ہے
تو ہی بتلا کہ میں کس طور سنبھالوں خود کو
میرے اطراف میں اک آہ و بکا جاری ہے
کیسے ممکن ہے اداسی سے بچا لوں خود کو
دم بھی سینے میں اترتا ہے تو گھُٹ جاتا ہے
جسم کی قید سے چاہوں کہ نکالوں خود کو
اے دلِ زار مجھے خود میں سمٹ جانے دے
اپنی بھیگی ہوئی پلکوں میں چھپا لوں خود کو
۔ ۵ ۔ جون ۲۰۱۰ء
No comments:
Post a Comment