Friday, April 17, 2020

جی میں آتی ہے کہ جوں مہر اجالوں خود کو

غزل


جی میں آتی ہے کہ جوں مہر اجالوں خود کو
مطلعِ تیرہءِ مغرب سے اچھالوں خود کو

اس سے پہلے کہ ہوا گرد اڑائے میری
سوچتا ہوں کہ میں اک سنگ بنا لوں خود کو

شیشہء دل میں تری بات سے بال آیا ہے
تو ہی بتلا کہ میں کس طور سنبھالوں خود کو

میرے اطراف میں اک آہ و بکا جاری ہے
کیسے ممکن ہے اداسی سے بچا لوں خود کو

دم بھی سینے میں اترتا ہے تو گھُٹ جاتا ہے
جسم کی قید سے چاہوں کہ نکالوں خود کو

اے دلِ زار مجھے خود میں سمٹ جانے دے
اپنی بھیگی ہوئی پلکوں میں چھپا لوں خود کو

۔ ۵ ۔ جون ۲۰۱۰ء

No comments:

Post a Comment