Wednesday, June 21, 2017

غزل: گرا تو ہوں پہ لمبے فاصلے طے کر گیا ہوں

غزل


گرا تو ہوں پہ لمبے فاصلے طے کر گیا ہوں
کہ میں ٹوٹے پروں کے زور پر اُڑتا رہا ہوں

مجھے اسلاف سے ورثے میں فتنے بھی ملے ہیں
پہ حسبِ استطاعت اِن کے آگے ڈَٹ گیا ہوں

پٹخ دیں گے زمیں پر، آج کل کی بات ہے بس
میں اپنے دوستوں پر بوجھ بنتا جا رہا ہوں

ستارے مجھ کو جلتی بجھتی آنکھیں لگ رہے ہیں
اِنہی آنکھوں سے شش پہلو جہاں کو دیکھتا ہوں

مرے اُس فعل کو وہ بزدلی گردانتا ہے
سہارا کیوں دیا دشمن کو، اب پچھتا رہا ہوں

نکلتے ہیں تڑپ کر، اشک ہوں یا لفظ، آسیؔ 
میں چشم و لب کی کم ظرفی سے تنگ آیا ہوا ہوں

۔۹۔ مئی ۲۰۱۷ء

No comments:

Post a Comment