Wednesday, June 21, 2017

غزل: کانٹے اسی کے توڑئیے، نشتر میں ڈھالئے


غزل


کانٹے اسی کے توڑئیے، نشتر میں ڈھالئے
خونِ رگِ گلاب سے خوشبو نکالئے


حیراں تو اس لئے ہوں، مرے کس گناہ پر
نفرت نے دل میں آپ کے ڈیرے جما لئے

طاقت کے بل پہ آپ کی شہرت بہت ہوئی
کمزریوں کو میری بھی، لیجے اچھالئے

مجھ پر تو میری جان بھی بوجھل ہے ان دنوں
تحفے دئے تھے آپ نے جو سب سنبھالئے

دل بجھ گیا تو آنکھیں بھی روشن نہیں رہیں
اب تو غموں کی آنچ پہ کچھ اشک ڈھالئے

اس بھول پن پہ آپ کے، آسیؔ جی کیا کہیں
یاروں کے اعتماد پہ دشمن گنوا لئے

محمد یعقوب آسیؔ
اتوار ۲۱؍ جون ۲۰۱۵ء




1 comment:

  1. کانٹے اسی کے توڑئیے، نشتر میں ڈھالئے
    خونِ رگِ گلاب سے خوشبو نکالئے
    بہت خوب۔۔۔
    کمال است

    ReplyDelete