غزل
اپنے دشمن ہزار نکلے ہیں
ہاں مگر، باوقار نکلے ہیں
ہم بھی کیا بادہ خوار ہو جائیں
شیخ تو بادہ خوار نکلے ہیں
گھر کا رستہ نہ مل سکا ہم کو
گھر سے جو ایک بار نکلے ہیں
چاند بن چاندنی کہاں ہو گی
گو ستارے ہزار نکلے ہیں
خونِ دل دے کے جن کو سینچا تھا
نخل سب خاردار نکلے ہیں
بند کوچے کی دوسری جانب
راستے بے شمار نکلے ہیں
بعد اک عمر کی خموشی کے
حرف کچھ تاب دار نکلے ہیں
ہم تو سمجھے تھے مست ہیں آسیؔ
آپ بھی ہوشیار نکلے ہیں
کوئی کہتا تھا خوش ہیں آسیؔ جی
وہ بھی تو دل فگار نکلے ہیں
۔ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۹۳ء
No comments:
Post a Comment