Thursday, March 14, 2019

غزل: ہر لحظہ بہ ہر رنگ تحیر کا سبب ہے


غزل

ہر لحظہ بہ ہر رنگ تحیر کا سبب ہے
یہ نقصِ تسلسل کا تسلسل بھی عجب ہے

وہ دشمنِ ایماں ہے، چلو مان لیا، پر
یہ دل بھی تو ضدی ہے، مری مانتا کب ہے

گفتار کے شعلوں میں اسے جھونک نہ دینا
کردار سے ہے، تیرا اگر نام و نسب ہے

اک قطرہء نمکیں کو بناتی ہے دُرِ ناب
اک طُرفہ اتالیق یہ تاریکیء شب ہے

ہر گام خبر دیتی ہے، منزل کی، جنوں کو 
گو اپنی طبیعت میں خرد عیش طلب ہے

میں نہرِ لبن کھودوں گا ہر راہ گلی تک 
اِن تیشہ بدستوں کے لئے وجہِ غضب ہے

اک عمر سے حائل ہے سر و صدر میں حلقوم
بے تابیء افکار نہ پہلے تھی نہ اب ہے

زندہ ہوں، نہ مردہ ہوں، نہ بے کل، نہ پریشاں
سکرات کا نشّہ ہے! نہ غم ہے، نہ طرب ہے

جذبے بھی تو اظہار کے محتاج ہیں آسیؔ 
خود دیکھ لے کتنا ترے الفاظ میں ڈھب ہے

۔۲۰۔نومبر ۲۰۱۷ء

No comments:

Post a Comment