غزل
دل کی دنیا مہیب دنیا ہے
ڈر سا اک روز کلبلاتا ہے
روز و شب ایک سے ہوئے آخر
روشنی ہے نہ اَب اندھیرا ہے
نام کے اس فقیر کو دیکھو
آسماں سا مزاج رکھتا ہے
یوں بھی از راہِ خاطرِ احباب
مجھ کو بالجبر مسکرانا ہے
میری آنکھوں میں خیر کیا ہو گا
آئنہ ہی اداس لگتا ہے
سرگزشتِ حیات کا حاصل
سادہ کاغذ کا اِک پلندا ہے
غنچہء اشک شاخِ مژگاں پر
دردِ پنہاں سے پھوٹ جاتا ہے
اُس کی آنکھیں بھی ہیں اداس بہت
اُس کا چہرہ بھی اپنے جیسا ہے
میرے دل میں بسا ہے سناٹا
یار کہتے ہیں، شور کرتا ہے
اپنے آسیؔ کا پوچھتے ہو کیا
اک عجب جَوز طبع بندہ ہے
۔۱۲۔اکتوبر ۲۰۱۷ء
No comments:
Post a Comment