غزل
مری حیات کی لکھی گئی کتاب عجیب
غریب متن ہے اِس کا تو انتساب عجیب
کسی کے ہِجر نے کانٹے خیال میں بوئے
حصارِ خار میں مہکے مگر گلاب عجیب
ازل کے حبس کدوں میں چلی ہوا تازہ
نگاہِ ناز نے وا کر دئے ہیں باب عجیب
قدم تو کوچہء جاناں کو اُٹھ گئے از خود
انا کی جان پہ ٹوٹے مگر عذاب عجیب
وفورِ شوق میں آنکھیں سوال ہوتی ہیں
لبوں پہ کانپتے رہتے ہیں اضطراب عجیب
فرازِ طور پہ لفظوں کو افتخار ملا
سوالِ شوخ سے بڑھ کر ملا جواب عجیب
گئے برس بھی یہاں آشتی کا قحط رہا
اور اب کے سال اٹھے خوف کے سحاب عجیب
رگِ حیات کہاں لامکاں کی بات کہاں
جنابِ شیخ نے پیدا کئے حجاب عجیب
۔ ۲۰؍ مارچ ۱۹۹۵ء
No comments:
Post a Comment