غزل
غموں پر پھر جوانی آ گئی ہے
۔’’طبیعت میں روانی آ گئی ہے‘‘۔
ابھی ’اَرِنِیْ‘ نہ کہہ پایا تھا زاہد
صدائے ’لَنْ تَرَانِیْ‘ آ گئی ہے
نہ بن پائی کبھی جو بات ہم سے
وہ اب کچھ کچھ بنانی آ گئی ہے
ستارے ٹوٹنے گرنے لگے ہیں
یہ آفت ناگہانی آ گئی ہے
کہاں تک آہ و زاری کیجئے گا
وہ جو اک شے تھی آنی آ گئی ہے
جسے ہم نے چھپایا آپ سے بھی
وہ ہر لب پر کہانی آ گئی ہے
کہیں سے ڈھونڈ کر آسیؔ کو لاؤ
فضا میں کچھ گرانی آ گئی ہے
۔ ۲۵؍ نومبر ۱۹۹۵ء
No comments:
Post a Comment