غزل
دوستوں نے تیر جب دل میں ترازو کر دئے
ہم نے سب شکوے سپردِ شاخ آہو کر دئے
درد کے دریا میں غوطہ زن ہوا غوّاصِ شوق
موج خود کشتی بنی، گرداب چپو کر دئے
حُسن کی بے اعتنائی کو بس اتنا سا خراج؟
کیا کِیا قرباں اگر دو چار آنسو کر دئے
سایۂ دیوارِ جاناں ظلِ طوبیٰ سے سوا
اُس نے یہ کیا کہہ دیا، الفاظ خوشبو کر دئے
زندگی اک دم حسیں لگنے لگی مجذوب کو
اک نگاہِ ناز نے کیا کیا نہ جادو کر دئے
وقتِ رخصت پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں
اشک جتنے تھے ترے آنے پہ جگنو کر دئے
تھا وہ اک یعقوب آسیؔ دفعتاً یاد آ گیا
میری گردن میں حمائل کس نے بازو کر دئے
۔ ۳؍ اگست ۱۹۹۴ء
No comments:
Post a Comment