غزل
گلی کوچے لہو سے اٹ گئے ہیں
بس اک جنگل کا رستہ رہ گیا ہے
بڑے تو بند ہو بیٹھے گھروں میں
گلی میں ایک بچہ رہ گیا ہے
ضمیرِ آدمیت سخت جاں تھا
ستم گر ہاتھ ملتا رہ گیا ہے
دمِ ہجرت کہا بچے نے رو کر
مرا ٹوٹا کھلونا رہ گیا ہے
ہوئیں اُن سے زمانے بھر کی باتیں
جو کہنا تھا وہ کہنا رہ گیا ہے
۔ ۳۰؍ ستمبر ۱۹۹۴ء
No comments:
Post a Comment