رباعیات
{}
ایسے میں کوئی کہے تو کیا چپ ہی بھلی
دشمن نہ ہوئے دوست ہوئے بات وہی
یاروں کے کئے پر ہیں عدو تک حیراں
یوں بھی ہو گا ہم نے نہ تھا سوچا کبھی
اپریل ۱۹۹۶ء
{}
سب پند و نصیحت یہاں بے کار ہوئی
جب خلقِ خدا درپیء آزار ہوئی
قاضی نے قضا کے یہ دیا ہے فتویٰ
جو قوم تہی فکر ہوئی خوار ہوئی
اپریل ۱۹۹۶ء
{}
سو بار ہنسا کیجئے اک بار نہیں
پر کیجئے اس بات سے انکار نہیں
ہے پردۂ تضحیک میں اقرارِ وفا
نفرت سے تبسم کو سروکار نہیں
اپریل ۱۹۹۶ء
{}
ہم نے بازارِ بے کساں دیکھا ہے
اسبابِ گراں اور گراں دیکھا ہے
صد حیف مگر نانِ جویں کی خاطر
بے قیمت بکتا انساں دیکھا ہے
اپریل ۱۹۹۶
{}
وافر جو مجھے درد ملا سب کو ملے
دولت جو ہوئی مجھ کو عطا سب کو ملے
کیوں میں ہی سزاوارِ عنایات رہوں
جو مجھ کو ملا میرے خدا سب کو ملے
۔ ۲؍ ۱گست ۱۹۹۶
{}
اس دور میں بھی مہر و محبت ڈھونڈے
برفانی ہواؤں میں حرارت ڈھونڈے
آسیؔ کا کرو کچھ کہ یہ دیوانہ ہوا
سہمے ہوئے لوگوں میں ظرافت ڈھونڈے
۔ ۷؍ اگست ۱۹۹۶
No comments:
Post a Comment